حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، استاد شیخ یعقوب بشوی نے سورہ مبارکہ بقرہ کی 186ویں آیت"وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ."،کو عنواں درس قرار دیتے ہوئے کہا کہ پروردگار عالم بہانہ ڈھونڈتا ہے اپنے بندوں کو بخشنے، بیدار کرنے اور جنتی بنانے کےلئے،اسی لئے قرآن مجید کے اہم دستورات میں سے ایک "دعا" ہے۔
انہوں نے کہا کہ دعا دراصل اپنی حاجتوں کو بیان کرنے کا نام ہے اور لفظ دعا فقط اور فقط خداوند متعال کی ذات کے لئے استعمال ہوا ہے ہم کہتے ہیں کہ آپ کسی نبی سے دعا مانگیں کسی ولی سے دعا مانگیں، لیکن دعا براہ راست اللہ سے مانگی جاتی ہے چونکہ دعا کے ذریعے خدا کی عنایتوں کو اپنی طرف مبذول کرنا مقصود ہوتا ہے۔
استاد جامعۃ المصطفی نے مزید کہا کہ اسی بناء پر خداوند عالم نے رحمۃ العالمین سے مخاطب ہوکر فرمایا:وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي"یہاں سألک مخاطب کا صیغہ ہے میرے حبیب جب تجھ سے سوال کرے چونکہ اس آیت میں بہت ساری ظرافتیں ہیں اور بہت ساری عنایتیں ہیں اسی وجہ سے سب سے پہلے سئلک کو لایا یعنی دعا میں ہمیشہ سائل بننا پڑھتا ہے یہ ادبی،عرفانی اور الہی نکتہ ہے دعا سائل بنے بغیر مفہوم نہیں رکھتی۔جب سائل مانگتا ہے تو ہاتھوں کو پھیلاتا ہے چونکہ ہاتھوں کو آگے پھیلانا اس بات کی علامت ہے کہ میں محتاج ہوں،چونکہ دعا ایک تربیت ہے دعا ایک ورکشاب ہے۔
حجۃ الاسلام شیخ یعقوب نے درس کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ دعا میں تین چیزیں ہیں: ایک تو خود دعا مانگنے والا ہے، دوسری چیز، کس شیء کی دعا مانگ رہا ہے اور تیسری چیز کس سے دعا مانگ رہا ہے۔سب سے پہلی چیز خود بندہ ہے تو اس کے بعد کیا سوال کر رہا ہے چونکہ سوال کرنے کےلئے اس شیء کی اہمیت کو جانے کی ضرورت ہے۔
استاد بشوی نے مذکورہ آیت پر روشنی ڈالتے ہوئے بیان کیا کہ سورہ مبارکہ بقرہ کی 186ویں آیت سمیت اس سورے میں بہت سارے اوامر الہی موجود ہیں، ان میں سے ایک دعا کا دستور ہے،اس آیت مجیدہ میں عبادی؛عنی اور دعانی وغیرہ کے الفاظ پروردگار عالم کی عطوفت پر دلالت کرتے ہیں،اس کے قریب کر رہے ہیں تو یہاں پر پیغمبر(ص) سے خطاب ہے!یہاں پر سئلک تو کہا لیکن بندے کو سائل نہیں کہا چونکہ اگر یہ کہہ دے کہ سوال کرے سائل تو اس سائل کا رابطہ خدا سے نہیں بنتا لیکن خدا کہہ رہا ہے جب میرا بندہ سوال کرے، تو یہاں پر براہ راست بندے کا خدا سے ایک تعلق جوڑ رہا ہے اور ایک رابطہ برقرار ہو رہا ہے جب میرے بندے تجھ سے سوال کریں واقعتاً یہاں پر نفسیاتی حوالے سے بھی بہت ساری عبرت کی چیزیں ہیں چونکہ یہاں پر سائل پیغمبر ہیں اور پوچھ رہا ہے اللہ کے بارے میں تو پیغبر کو اللہ نے اپنے درمیان میں وسیلہ بنا دیا تو میرے بندوں سے کہہ دو میں قریب ہوں میرا بندہ یہ تصور نہ کرے اگر وہ دعا کرے تو میں اس کی آواز کو نہیں سنتا ایسی بات نہیں ہے میرے بندوں سے کہہ دو کہ تم سوال کرو میں قریب ہوں جب قریب ہوتو قریب والے کا نہ سننا معنی نہیں رکھتا ہے اور میں اس کی آواز پہ لبیک کہتا ہوں اور یہ نہ سوچیں کہ میں اس سے دور ہوں بلکہ میں اس کے بہت ہی قریب ہوں جب بھی وہ پکارے میں اس کی پکار پہ لبیک کہتا ہوں۔
انہوں نے دعا کی مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ دعا ایک ایسی عبادت ہے کہ جو زمان اور مکان کی قید سے خالی ہے چونکہ دوسری عبادتوں میں زمان اور مکان کی قید ساتھ ہے جیسے نماز جو کہ اہم عبادات میں سے ایک ہے اس کے لئے وقت مشخص ہے، آپ جب چاہئے نماز نہیں پڑھ سکتے تو پروردگارعالم نے عبادتوں کا وقت معین کر رکھا ہے آپ کو نماز پڑھنے کےلئے جگہ کی قید کے ساتھ طہارت کی قید ہے آپ ہر جگہ نماز ادا نہیں کرسکتے ہیں اس طرح روزہ رکھنے کےلئے وقت معین ہے یعنی فقط رمضان میں صبح سے شام تک روزہ رکھ سکتے ہیں اسی طرح ہر چیز میں زمان ومکان مخصوص ہے لیکن دعا ایک ایسی عبادت ہے جس کےلئے کوئی زمان ومکان کی شرط نہیں ہے جہاں آپ کا جی چاہئے مانگ لیں جیسے بھی پکارے آپ بلند آواز سے پکارے یا دل میں سوچیں خدا سنتا ہے، اس لئے کہ سننے والا اتنا قریب ہے کہ دل کی آواز کو بھی سن لیتا ہے، سننے والے کی طرف سے کوئی رکاوٹ نہیں ہے اگر کوئی رکاوٹ ہے تو بندے کی طرف سے ہے۔
شیخ یعقوب بشوی نے کہا کہ انسان کو ہر حالت میں دعا کرنی چاہئے، قرآن مجید میں ہمیں کتنے انبیاء کی دعاؤں کا تذکرہ ملتا ہے اگر کسی کے یہاں اولاد نہیں تو پڑھو رب لا تزرنی فردا وانت خیر الوارثین لیکن ان تمام دعاؤں میں پروردگار نے کلمہ رب کو لایاہے: رَبَّنَا لاَ تُؤَاخِذْنَا إِن نَّسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا رَبَّنَا وَلاَ تَحْمِلْ عَلَيْنَا إِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهُ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِنَا رَبَّنَا وَلاَ تُحَمِّلْنَا مَا لاَ طَاقَةَ لَنَا بِهِ وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَآ أَنتَ مَوْلاَنَا فَانصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ؛ چونکہ دعا ایک تربیتی ورکشاب ہے تو انسان یہاں پر اپنی کمزوریوں کو بھی بیان کرتا ہے اور اس کے بعد خدا سے تقاضا کرتا ہے کہ میری کمزوریوں سے درگزر فرما اور اپنے فضل وکرم کا ہمیں اقدار قرار دے اگر اس آیت کی نماز مغربیں کے بعد تلاوت کریں تو روایتوں میں آیا ہے کہ ساری رات عبادت کرنے کا ثواب خدا عطا فرماتا ہے تو اس دعا میں اپنی عاجزی کا اظہار کر رہا ہے کہ مجھے گرفتار نہیں کر،خدا فراموشی اور غضب کے علاوہ نہیں پکڑتا ہے انسان کو دیکھو قرآن میں دعا کےلئے لفظ جمع آیا ہے یعنی دعا میں ایک تربیتی اصول یہ ہے کہ آپ فقط اپنے لئے دعا نہیں مانگے بلکہ دوسروں کے لئے بھی مانگیں وہ زیادہ قبول ہوتی ہے اسی وجہ سے ماہ رمضان میں ایک دعا نقل ہوئی ہے اللھم ادخل علی اہل القبور السرور۔۔۔۔ یہ انتہائی جامع ترین دعا ہے اس سے بڑھ کر کوئی جامع دعا نہیں ہے، اس دعا میں آئمہ علیہم السلام تمام معاشرے کی ضرورتوں کو سامنے رکھ کر تمام انسانوں کو بلا استثناء مکتب و مذہب سب کے لئے دعا مانگنے کی تعلیم فرما رہے ہیں اگر یہ دعا رمضان میں ہر نماز کے بعد پڑھتے ہیں تو چالیس سال عبادت کرنے کا ثواب ہے اور دعا میں دوسروں کا خیال رکھے اسی وجہ سے جو خدا تعلیم دے رہا ہے لا تواخذنا ہمیں نہ پکڑ بندہ اپنی بات نہیں کر رہا،جمع کا صیغہ استعمال کیا ہے اگر ہم فراموش کریں یا خطا کے مرتکب ہو جائیں، پروردگار ہم پہ وہ بوچھ نہ ڈالے جیسا ہم سے پہلے والوں پہ ڈالا تھا اور ہماری طاقت سے ہٹ کر ہمیں تکالیف نہ دینا جس طرح ہم سے پہلے والے لوگوں کےلئے تکالیف دیں اور ہم سے درگزر کرنا، کیونکہ اجتماعی عبادتوں کی بہت فضیلت ہے اسی وجہ سے وَاعْفُ عَنَّا کہا ہم سے درگزر فرما ہمیں معاف فرما اور ہماری مغفرت فرما اور ہر دعا میں مغفرت کی دعا ضروری ہے اور آخر میں فرمایا: جو ہمارے مقابلے میں دشمنان دین کھڑے ہیں جو ہمیں جینے نہیں دیتے ہیں جو رات دن ہمارے دین کے خلاف کام کر رہے ہیں جو ہماری اقدار کو ختم کرنے کے درپے ہیں آج بھی دشمں آزادی کے نام پہ اگر کسی مجرم کو مسلمان ملک میں کوئی سزا ملے تو ان کی چیخیں نکل جاتی ہیں لیکن اپنے ملک میں کسی لڑکی کے سر پر ڈوپٹہ برداشت نہیں کرتے ان کی دوغلی پالیسی دیکھے تو انسانیت شرمندہ ہوجائے لیکن نعرہ لگاتے ہیں اور ان کے اس فریبی نعروں میں سادہ لوح مسلمان بھی آجاتے ہیں وگرنہ کہاں کی آزادی ؟ نہ بولنے کی آزادی ہے نہ عمل کی آزادی ہے، لیکن ہمارے ملک میں کرایے کے کچھ لوگوں کو آزادی کے نام پر آگے لاتے ہیں اور یہ لوگ آزادی آزادی کا نعرہ لگاتے ہیں در اصل آزادی ہمیں انسانیت کے اعلیٰ درجے سے گرا کر حیوانیت کی طرف لے جانے کےلئے ایک بہانہ ہے اسی وجہ سے ایک مؤمن اللہ تعالیٰ سے یہ دعا مانگتا ہےکہ ہمارا سرپرست یہ کفار نہیں ہیں ہماری سرپرستی کا حق تجھے حاصل ہے ہم کسی کافر سے مدد نہیں مانگتے ہمارا تکیہ گاہ آپ ہے اور ان کافروں پر ہمیں فتح ونصرت عطا فرما۔
حجۃ الاسلام استاد یعقوب بشوی نے سورہ مبارکہ فرقان کی 77 ویں آیت کی روشنی میں فلسفہ دعا کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ اس آیت مجیدہ میں رب العزت ارشاد فرما رہا ہے " قُلْ مَا یَعْبَاٴُ بِکُمْ رَبِّی لَوْلاَدُعَاؤُکُمْ فَقَدْ کَذَّبْتُمْ فَسَوْفَ یَکُونُ لِزَامًا۔ترجمہ: کہہ دو! اگر تمہاری دعا نہ ہوتی تو میرا پروردگار تمہیں کوئی اہمیت نہ دیتا ۔تم نے( خدا اور انبیاء کی) تکذیب کی اور یہ ( تکذیب) تمہارا دامن پکڑے گی اور تمہیں ہر گز نہ چھوڑے گی۔
عموماً ہمارے معاشرے میں یہ کہتے ہیں کہ ہماری دعا قبول نہیں ہو رہی،معصوم علیہم السلام فرماتے ہیں جب عمیق انداز میں دعا کریں تو اس دعا کا تین اثر ہے،البتہ کافر کی دعا کی بات نہیں ہو رہی۔ اب دعا تو ہم کرتے ہیں لیکن مستجاب نہیں ہوتی اس کی وجہ کیا ہے؟ اصل میں دعا وہی نیازمندی اور محتاجی ہے آپ نے دیکھا نہیں ہوگا کہ جس شیء کی ضرورت نہ ہو اس کی دعا مانگے، دعا ہمیشہ انسان کی ضرورت ہوتی ہے کبھی ہماری مرضی کا نتیجہ نہ ملے ،تو کہتے ہیں کہ دعا کا کیا فائدہ؟ یہ غیر اخلاقی باتیں ہمارے معاشرے میں رائج ہیں،تو ایسے لوگوں سے ہماری گزارش ہے کہ اگر ایسی بات ہوتی تو قرآن میں اللہ تعالی دعا کا تذکرہ نہیں کرتا، قرآن میں دعاؤں کی وجہ سے بہت سارے کام آسان ہوگئے ہیں ہمارے نبی(ص) کی بعثت کا مقصد ہی اسماعیل اور ابراہیم علیہم السلام کی دعاؤں کا نتیجہ ہے، قرآن اس قدر دعا کے آثار کو بیان کر رہا ہے اور نہ فقط آثار بلکہ ہمیں اپنے پروردگار سے کیسے مانگنا ہے وہ طریقہ بھی بتا رہا ہے بارگاہ الہی میں دعا مانگنے کے آداب ہیں۔
انہوں نے آخر میں دعا مانگنے کے آداب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ آداب دعا کی طرف قرآن توجہ دلاتا ہے اور ہماری روایتوں میں بھی آیا ہے کہ تم دعا مانگو میں قبول کرتا ہوں اب کسی کی جلدی قبول ہوتی ہے کسی کی تھوڑی دیر بعد کسی کی قبول ہی نہیں ہوتی، قبول نہیں ہونا عدم شرط کی بناء پر ہے ، ایک دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ دعا مانگو لیکن خدا اس دنیا میں قبول نہیں کرتا یہ بھی مصلحت کی بنیاد پر ہے ، مؤمن قیامت کے دن کہے گا کاش اللہ تعالیٰ دنیا میں میری ایک بھی دعا قبول نہیں کرتا! اس لئے کہ مؤمن قیامت کے دن اپنی دعاؤں کے بہت سارے آثار اور نتائج کا نتیجہ پائے گا مطلب یہ ہوا کہ کچھ دعائیں آخرت کے ساتھ مخصوص ہیں، معصوم علیہم السلام فرماتے ہیں اگر پروردگار تمہاری دعا کا نتیجہ دنیا میں نہ دے تمہاری دعاؤں کا نتیجہ آخرت میں نہ رکھے تو اس کا تیسرا اثر یہ ہوگا کہ یہ دعا انسان کےگناہوں کا کفارہ بن جائے گی۔